محل تبلیغات شما



اوّل  اربعین یعنی ۲۰ صفر۶۱ھ کو اہلبیت علیہم السلام شام  سے مدینہ واپسی کے دوران کربلائے معلی سے گزرے ہیں یا نہیں، ایک ایسی بحث ہے جس کے بارے میں کوئی رائے دینا  آسان کام نہیں ہے،  اس بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔


واقعہ کربلا میں لشکر یزید کی   بیشتر  تعداد  کوفہ سے تھی تو اس بابت لوگوں کی ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ کوفہ تو ایک شیعی شہر تھا وہاں کے لوگوں نے امام حسینؑ کو  خطوط لکھے اور مسلم بن عقیل  کے ہاتھوں پر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے  بیعت کی ،  بعد میں یزید کے گورنر  ابن زیاد کے ساتھ شامل ہو  گئے اور امام کو شہید کر دیا  پس امام حسینؑ کو کوفہ کے حقیقی و عقیدتی شیعوں نے ہی شہید کیا ہے۔  لہذا اسی زہریلے شُبہ کا  جائزہ لیتے ہوئے اس مختصر تحریر میں ہم نے  اس کا سدّباب کرنے کی کوشش کی ہے۔


عدالت کُش اور حقائق دشمن افراد واقعہ کربلا کو مخدوش کرنے اور امام عالی مقام حسین بن علیؑ  کے  اصلی و حقیقی قاتلین کو چھپانے کے لئے قتلِ امام کی ذمہ داری شیعیانِ علیؑ پر ڈالنے کی ناکام کوششوں میں ہمیشہ  مصروف  رہے  ہیں  نیز  نئی نسلوں  کو اس بارے مشکوک کرنے کے لئے  ان کا  یہ ناکام سلسلہ   تاہنوز جاری  و ساری ہے۔  لہذا اس شُبہ  کے  ازالہ میں اس مختصر تحریر میں  جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔


  واقعہ کربلا  کی یاد منانا دشمنانِ اہل بیتؑ  کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنے کا باعث ہے لہذا انہوں نے واقعہ کربلا کی تاثیر کے پیشِ نظر ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ہر ممکنہ طریقے سے اس عظیم اور تاریخی واقعے کو فراموش اور لوگوں کے ذہنوں سے  مٹا دیا جائے۔ بعض افراد نے  کتب، مقالہ جات اور اس قسم کے مختلف تحریری اور تقریری  طور طریقے  استعمال کئے  ہیں تاکہ واقعہ عاشورا  اور عزاداریِ سید الشہداء کی  آفاقی  تاثیر کو ختم کر دیا جائے۔


زندگی بھی ایک  عجیب  شے ہے۔ گزرنے پر آجائے تو بڑی  تیزی  اور روانی کے ساتھ ندی کے پانی کی طرح گزرتی جاتی ہے۔ اگر گزرنے پر نہ آئے تو ماضی کو جنم دیتی ہے اور اس راستے سے بار بار گزارتی ہے؛  دنیا کے سمندر میں کئی ہچکولے اور غوطے دیتی ہے؛ کبھی ساحل پر بطور آسانی  لا کھڑا کرتی ہے اور کبھی   دریا سے باہر پڑی  مچھلی کی  مانند  تڑپاتی ہے۔ کبھی کسی کے وصل کی چھتری تان دیتی ہے اور کبھی کسی کے  جدا ہونے کو  مدتوں بے چین اور بے قرار رکھتی ہے۔ بہر حال یہ زندگی جو نسا پہلو مرضی اختیار کرے اسے گزرنا بھی ہے اور گزارنا بھی ہے۔


حضرت عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں تاریخ کے اوراق کو الٹ پلٹ  کیا جائے تو پہلی بار ان کا تذکرہ   تاریخی شواہد کے مطابق یوں   ملتا ہے کہ ۱۴۰ ہجری میں عباسی خلیفہ المنصور   حج کی غرض سے مکہ آیا، اس سے پہلے  محمد نفس زکیہ اور  اس کا بھائی ابراہیم   روپوش تھے مگر حج کے موسم میں یہ مکہ آئے او ر انہوں   نے  عباسی خلیفہ کو قتل کر دینا چاہا، عبداللہ الاشتر( عبداللہ شاہ غازی)  نے ان سے کہا میں اس کا کام تمام کئے دیتا ہوں لیکن نفس زکیہ نے منع کیا اور اصرار کیا   تا وقتیکہ ہم اسے اپنی بیعت کی دعوت نہ دیں تم اسے اچانک قتل نہ کرو، اسی اختلاف رائے کی وجہ سے ان کا  سارا منصوبہ  خراب ہوگیا ،  اس سازش میں  عباسی خلیفہ کا ایک خراسانی سپہ سالار  بھی ان کے ساتھ ہو گیا تھا۔( تاریخ الطبری، ج۵، ص۱۹۴)


مختلف ممالک کے الگ الگ زبان اور رنگ و نسل کے زائرین نجف سے کربلا کے درمیان کا راستہ جو مشی کے نام سے شہرت پا چکا ہے پاپیادہ طے کر تے ہیں۔  درست ہے کہ لفظ مشی کا لغوی معنی پیدل چلنا ہے لیکن اربعین پر کی جانے والی مشی لغوی معنی کے ساتھ ساتھ الہی  اقدار، بلندیوں اور کمالات کی جانب  تحرک کو بھی شامل ہے نیز  یہ ایک متحرک دینی  درسگاہ اور اخلاقی تربیت گاہ ہے۔


 جن لوگوں نے دنیا میں علمی،   دینی،  ملی، تنظیمی اور ی کارنامے انجام دیئے  ان کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئے رقم ہوجاتا ہے۔ علامہ سید سبطین کاظمی  ایک تاریخ کا نام ہے،  تاریخ کی عظمتیں ایک کالم میں نہیں سمو سکتیں، لوگوں نے ان کی فعالیت  کی وجہ سے انہیں اپنے  دلوں میں جگہ دی ۔


جہاں تک علم کے حروف ونقوش، کتابی معلومات اور فن کا تعلق ہے اس کے کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں، لیکن دین کا ٹھیٹھ مزاج ومذاق اور تقویٰ وطہارت، سادگی وقناعت اور تواضع وللہیت کا انوکھا انداز، جو کتابوں سے نہیں بلکہ صرف اور صرف بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے، دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے۔
شخصی خوبیوں کی بنیاد پر کام کرنے اورمقبولیت پانے والوں میں سے جن کی بہت تعریف سنی وہ مجسٹریٹ ملک زوار علی گھلو مرحوم تھے۔ ان کے بارے میں سن کر لگتا ہے کہ کافی مختلف اور شاندار شخصیت رہے ہوں گے جو اس جہان فانی سے جانے کے کئی دہائیوں بعد بھی ان کا تذکرہ زندہ ہے۔
معروف صحافی حامد میر نے مولانا سمیع الحق مرحوم کے جنازہ میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت کرنے کی بدولت اپنے ایک کالم بعنوان"ایک جنازہ کی گواہی" میں لکھا تھا امام احمد بن حنبل نے فرمایا تھا کہ ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے۔
مجھے کوئی سلام نہ کرے، حتیٰ میری طرف ہاتھ سے بھی اشارہ نہ کرے، کیونکہ تم لوگ محفوظ نہیں ہو۔(راوندی، الخرائج و الجرائح، ج۱، ص ۴۳۹؛ بحارالانوار، ج۵۰، ص۲۶۹) مذکورہ توقیع (تحریر)امام حسن عسکری علیہ السلام کی جانب سے ان افراد کو موصول ہوئی جو امام سے ملاقات کرنے کی غرض سے راستے میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے کیونکہ آپ کے گھر میں آپ سے براہِ راست ملاقات کرنا ممکن نہیں تھا۔

تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها

نگرش نو و علمی در رفع شبهات خلقت انسان